یہ بات ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے کراچی باغ جناح میں منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان، مئیر کراچی وسیم اختر سمیت ایم کیو ایم کے رہنماؤں خواجہ اظہار الحسن، فیصل سبز واری، نسرین جلیل اور دیگر نے خطاب کیا۔ جلسے میں عامر خان کی جانب سے نعرے بھی لگائے کہ ”سندھ میں ہوگا کیسے گزارہ، آدھا تمہارا آدھا ہمارا“۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ آج کا جلسہ دیکھ کر بتائیں کیا ایم کیوایم تقسیم نظر آتی ہے؟ انگریزوں نے سازش کرکے ہندوستان کے سب سے کم تعلیم یافتہ علاقے میں پاکستان بنایا، ہمارے تعلیم یافتہ آبا واجداد نے اپنی مہارت سے پاکستان کو ترقی یافتہ بنادیا، کوٹا سسٹم کی وجہ سے سندھ تقسیم ہوا، سندھ کو تم نے پہلے تقسیم کیا ہم نے آج اعلان کیا ہے۔
سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان نے کہا کہ سندھ کبھی بھی ایک جغرافیائی اکائی نہیں رہا، ستر میں یحییٰ خان نے آمرانہ فیصلہ کرکے چار صوبے بنائے، سندھ کو ہمیشہ سے ایک سمجھنے والے تاریخ کو مسخ کرتے ہیں ماضی میں صرف مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان تھا سندھ کے اصل وارث ہجرت کرکے آنے والے ہیں، صوبائی خودمختاری کے خلاف نہیں لیکن صوبائی خودمختاری کے نام پر صوبائی اجارہ داری قبول نہیں، جو لوگ ایم کیو ایم کو دفن کرنے کی بات کرتے ہیں آج کا جلسہ دیکھ لیں۔
رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بقاء و سلامتی کراچی کی ترقی کی ضامن ہے، جو جماعت کراچی سے تعلق نہیں رکھتی اسے یہاں سے منتخب کرادیا گیا، ایم کیوایم کی نشستیں کم کرنے والوں نے کرپشن کی راہ مزید ہموار کردیں۔ یہاں کی نوکریاں غیروں کو دی جائیں یہ کیا ظلم ہے، ڈاکٹرز اور سیکشن آفیسرز بھرتی کیے جائیں لیکن ہماری ماؤں بہنوں اور بچوں کو سندھی زبان نہ بولنے پر مسترد کردیا جائے اب یہ نہیں چلے گا۔
خواجہ اظہار کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت جواب دے کہ کونسی اٹھارویں ترمیم ہے جو آپ کو کراچی میں ترقیاتی کام کرنے سے روکتی ہے یہ پیپلزپارٹی کا پروپیگنڈا ہے تاکہ اس شہر میں ترقیاتی کام نہ ہوں، نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ماضی میں ایک دوسرے پر چور لٹیروں کا الزام لگاتے رہے آج دونوں شیر و شکر ہیں۔
رکن رابطہ کمیٹی فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ سندھ میں جاگیرداروں کی حکومت ہے یہاں کوئی جمہوریت نہیں، یہ جمہوریت کے نام نہاد دعویدار بنتے ہیں کوئی بتائے کہ ذوالفقار بھٹو کو صرف 70 نشستیں ملیں تو انہوں نے وزیراعظم بننے کی خواہش کی، یہ کونسی جمہوریت ہے۔ ٹویٹ کرنے سے کوئی بڑا لیڈر نہیں بنتا، بلاول صاحب ٹویٹ سے لیڈر بنتے تو آپ اوباما سے بڑے لیڈر ہوتے دراصل آپ عصبیت کی پیداوار ہیں۔
فیصل سبزواری نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کوئی صحیفہ نہیں ہے ہم اس کے خلاف نہیں، میرے شہر کو مردم شماری میں نصف گنا جائے انتخابات میں نتائج تبدیل کریں لیکن اس کے باوجود بھی ایم کیوایم پاکستان زندہ ہے، جو ایم کیوایم پاکستان چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ بھی آج کے جلسے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
میئر کے ایم سی وسیم اختر نے کہا کہ بلدیاتی نمائندے مشکلات سے دوچار ہیں، کوشش کی کہ شہری علاقوں کے مسائل مل جل کر حل کیے جائیں، ہر سیاسی جماعت کا دروازہ کھٹکھٹایا، ملاقاتیں کیں وزیراعلی کو خطوط لکھے مگر کوئی مثبت جواب نہیں ملا، اس صوبے میں بیڈ گورننس کی انتہا ہے۔
وسیم اختر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے واٹر بورڈ، کچرے، ٹرانسپورٹ کے معاملات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں ان محکموں میں تباہی ہے، کے ایم سی کے فنڈز روک کر سندھ حکومت میگا پراجیکٹس بناتی ہے اور یہ منصوبے بھی اپنے لوگوں کو سیاسی فائدے پہنچانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔