گورنمنٹ ہائی اسکول سوہاوہ میں کشمیر کے مسلمانوں کے حق خود ارادیت, اظہاریکجہتی کے لئے اور کشمیری رہنماؤں کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے ایک مثالی تقریب کا انعقاد.

سوہاوہ(تحصیل رپورٹر)گورنمنٹ ہائی اسکول سوہاوہ میں کشمیر کے مسلمانوں کے حق خود ارادیت, اظہاریکجہتی کے لئے اور کشمیری رہنماؤں کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے ایک مثالی تقریب کا انعقاد. مورخہ 5اگست 2019ء کوگورنمنٹ ہائی اسکول سوہاوہ میں کشمیر کے مسلمانوں کے حق خود ارادیت, اظہاریکجہتی کے لئے اور کشمیری رہنماؤں کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے ایک مثالی تقریب کا انعقاد کیا گیا. تقریب کے مہمان خصوصی حبیب اللہ, ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سوہاوہ, نعیم اختر مرزا, پرنسپل,گورنمنٹ ہائی اسکول سوہاوہ تھے. تقریب میں طالب حسین ہاشمی, ہیڈ ماسٹر عادل حسین,اے ای او, وقاص احمد اے ای او, فیصل ہاشمی, اے ای او, ناصر محمود. اے ای او, فرحان ارشد. اے ای او, فواد حیدر شاہ اے ای او, عاصم امیر.اے ای او,شجاع اے ای او, عامر حبیب اے ای او,ہامون اے ای او,شعیب ایای او, امتیاز کیانی ہیڈ ماسٹر,اسامہ نعیم سمیت کثیر تعداد میں معلمین اور معلمات نے شرکت کی. تقریب میں طلبا اور طالبات نے کشمیر کے حوالے سینغمے گاے.طلبا نے تقاریر پڑھیں. تقریب سے خطا ب کرتے ہوئے نعیم اختر مرزا, پرنسپل, نے کہا, وہ کشمیر جہاں پھول کھلتے تھے, فضاؤں میں اب پاریرقص کرتے رضاعت نرم ہواؤں کا گزر تھا. آج وہاں تاریکی اور سناٹا چھایا ہوا ہے. ایک کروڑ کشمیریوں پر انگارے برسائے جارہے ہیں سنگین کی نوک سیان کے سینے چھلنی کئے جارہیہیں. جہاں باد سحر تو آتی ہے لیکن ہزارون دشت و صحرا کی تپش ساتھ لاتی ہے. جہاں برگ عامر شبنم کے اک قطرے کی امیدوں پر چلتے ہیں.جہاں سٹوڈنٹ صدموں سے اپنے سر جھکائے سوچ میں گم ہیں. جہاں صحن چمن میں پھول اور خوشبو کسی سازش کے ڈر سے دور دور رہتے ہیں. جہاں ہاتھوں میں طائران خوشنما بے چارگی سے بین کرتے ہیں. جہاں اندھیری رات اپنے بال بکھیرے ہر روشنی کو ڈھانپ رہی ہے جہاں راتوں کو تنہائی اور دنوں میں کرب و بے بسی کا دور دورہ ہے یوں لگتا ہے درندوں کی بستی ہر طرف قہوے وحشی قہقہے,خون مسلکی ارزانی, ظلم و اذیت کا دیو کشمیر کے مسلمانوں کو نگل رہا ہے.حبیب اللہ, ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سوہاوہ نیقرارداد مذمت پیش کی اور تقریب سے خطاب کیا, یاران جہان کہتے ہیں کشمیر ہے جنتاور جنت کسی کافر کو نہ ملی ہے نہ ملے گی سبزے اور پھولوں سے لہلہاتی حسین و جمیل وادی ،پہاڑوں کی خوبصورتی میں لپٹی پرکشش جھیلیں، موسموں کے دلکش نظارے اور پھلوں سی مزید نعمتیں اس وادی کو جنت کہنے پر مجبور کرتی ہیں۔افسوس کے اس حسین و جمیل وادی میں رہنے والے خوبصورت اور بہادر باشندے برسوں سے قید کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔یہ نڈر و غیور قوم یہ سوال ضرور دل میں رکھتے ہوں گے کہ’ آخر مسئلہ کشمیر کب حل ہوگا‘؟۔ پھر خود ہی اس کے جواب میں جذبہ آزادی سے سرشار یہ لوگ کہتے ہوں گے کہ’ آخر کب تک‘؟۔ اللہ کے کرم سے ایک نہ ایک دن تو ہمیں آزادی ضرور نصیب ہوگی۔انشاء￿ اللہ!۔کشمیری برسوں سے آزادی کے حصول کے لئے لڑ رہے ہیں۔مگر ان کے ولولے میں کبھی کمی نہیں آئی۔بہت ثابت قدم قوم ہیں۔کشمیری ایسے پھولوں کی مانند ہیں، جنہیں ان کے اپنے ہی آنگن میں مسل اور مسخ کر دیا جاتا ہے۔مگر وہ پھر اگلی صبح نئی امید اور مہک کے ساتھ پنپتے ہیں۔برسوں سے قابض بھارتی فوج نے ظلم و ستم کی ایسی داستانیں قائم کیں ہیں ،جنہیں بیاں کرنا بھی مشکل ہے۔انسانیت کا درد رکھنے والا کشمیریوں پر ہوتے ظلم کی داستان سن کر تھر تھر کانپے اور بھارت کے لئے بددعا کرے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ امریکہ کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق 45فیصد کشمیری ڈپریشن جیسی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔ تقریب کے آخر میں امت مسلمہ کے لیے دعا کی گئی.کشمیر کے مسلمانوں کے لیے خصوصی دعا کی گئی.

اپنا تبصرہ بھیجیں