سپریم کورٹ میں موبائل ٹیکس کٹوتی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور ایک بار پھر عدالتی دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسے ٹیکس استثنی چاہیے متعلقہ کمشنر سے رجوع کرے، ٹیکس کے نفاذ پر ازخودنوٹس کی مثال نہیں ملتی، ٹیکسز پر حکم امتناع کے باعث حکومت اپنی آمدن کے بڑے حصے سے محروم ہے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہزاروں روپے وکیل کو دینے پر لوگ ٹیکس دینے کو ترجیح دیتے ہیں، لاکھوں لوگوں سے ٹیکس لیا جا رہا تھا جن پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا، ٹی وی لائسنس کا ٹیکس بھی ہر شہری سے لیا جاتا ہے، ہر ٹی وی دیکھنے پر اِنکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا لیکن وہ ٹیکس دیتا ہے، ماضی میں مشرقی پاکستان سیلاب ٹیکس نافذ ہوا تھا، مشرقی پاکستان الگ ہوگیا لیکن فلڈ ٹیکس 90 کی دہائی تک لیا جاتا رہا، پانی اور فون سے باتیں کرنے پر تو ٹیکس لگ چکا، اب ہوا پر ٹیکس لگنا باقی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ٹیکس کے اہل نہیں ان سے پیسہ لینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ لوگوں سے ٹیکس دائرے میں نہ آنے کے باوجود ٹیکس لینا اس کیس کی بنیاد بنا۔